بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا:
صہیو-امریکی پروگرام؛ فوجی دباؤ کے ذریعے اسرائیل کی بالادستی قائم کرنا
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور مغرب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ خطے کی جغرافیائی سیاست کو بدلنے کے لئے ان کے پاس وقت کم ہے، اور وہ موجودہ جغرافیائی سیاست کی اہم خصوصیات سے بھی واقف ہیں جہاں "مقاومت" کا دھارا ایک مؤثر قوت ہے۔ درحقیقت ان کا مقصد مختلف ممالک میں مزاحمت کو ختم کرنا اور اسرائیل کی بالادستی قائم کرنا ہے۔
البتہ، اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ اسرائیل کی بالادستی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں: یہ ملک چھوٹا ہے، اس کی آبادی یہودیوں پر مشتمل ہے، اور اس کا ایک مخصوص نظریہ ہے۔ کسی کی بالادستی قبول کرنے کے لئے عام طور پر فکری، معاشی یا تکنیکی برتری ہونی چاہئے، لیکن اسرائیل میں ان میں سے کوئی خصوصیت نہیں ہے۔
خطے کا کوئی بھی ملک اسرائیل کے حکمران نظریات کو قبول نہیں کرتا، نہ ہی اس کی معاشی برتری ہے، اور نہ ہی اس کی تکنیکی برتری قابل ذکر ہے۔ اس نے اپنی زیادہ تر مؤثر خصوصیات امریکہ اور دوسرے ممالک سے حاصل کی ہیں اور اس کے پاس اپنے اندر نمایاں وسائل نہیں ہیں۔ لہٰذا، اسرائیل کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے: فوجی دباوٴ اور طاقت کا استعمال۔ نتیجتاً، خطے کے ممالک کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ امریکہ اور اسرائیل کا پروگرام درحقیقت اسرائیل کی بالادستی قائم کرنے کے لئے فوجی دباؤ پر مبنی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل، چین، روس اور ایران کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں
انھوں نے ہمارے اوپر جنگ کیوں مسلط کی؟ کہا گیا کہ ایران خطے کی بڑی طاقت ہے، بالادستی کے ذریعے اس پر تسلط جمانا ممکن نہیں ہے، اس ملک کی بنیادیں ہیں، اس کے پاس ٹیکنالوجی، وسائل، 10 کروڑ آبادی، بڑی سرزمین، برسوں سلطنت کا پس منظر ہے؛ کہا: "تم جوہری ملک ہو، ہم کہتے ہیں کہ تم بھی تو جوہری ملک ہو؛ فرض کرو کہ ایران کے پاس جوہری سائنس ہے، تمہارے پاس تو ایٹمی اسلحہ بھی ہے، پھر کیوں لڑتے ہو؟؛ یہ سب بہانے ہیں۔ انہوں نے اپنا تسلط جمانے کے لئے جنگ مسلط کر دی۔
قطر پر حملہ ہؤا تو دوسرے بھی کسی حد تک سمجھ گئے کہ ان کے آگے کھڑا ہونا چاہئے لیکن اسے اب عملی ارادے میں تبدیل ہونا چاہئے، کیونکہ ان [عربوں] کی خوشحالی میں خلل پڑ سکتا ہے؛ کیونکہ جہاد و مبارزت اور جنگ و جدل کی بات ہے، انہیں بہرحال یہ قبول کرنا ہی پڑے گا، کیونکہ اس طرح جینا ممکن نہیں ہے، انہیں عزت و عظمت کے لئے میدان میں آنا پڑے گا۔ جس میں کچھ مشکلات بھی ہیں۔
ایسا ایسا لگتا ہے کہ عرب ممالک امریکہ اور اسرائیل کے علاقائی منصوبوں کو الگ کر رہے ہیں اور مسئلے کو غلط دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کا خطے میں ایک مکمل منصوبہ ہے: اسرائیل کو خطے پر مسلط کرنا۔ وہ دو اہداف کے پیچھے ہیں:
• پہلا یہ کہ پورا خطہ اسرائیل کے زیر انتظام چلایا جائے اور اس کا کنٹرول ہمیشہ امریکہ کے ہاتھ میں رہے۔
• دوسرا یہ کہ چین سے تعلق منقطع کیا جائے، کیونکہ چین معاشی طور پر ایک طاقتور ملک کے طور پر ابھرا ہے اور اس نے خطے میں اپنی اور بالادستی بڑھا دی ہے۔
چین کا کا "ون بیلٹ، ون روڈ" منصوبہ، جس کا مطلب ہے کہ اس کی معاشی شاہراہ آپ کی طرف کھل رہی ہے اور پھیل رہی ہے، وہ یورپ جانا چاہتا ہے، جس کی وجہ سے یورپ نے کسی حد تک تحفظ کی پوزیشن اختیار کر لی ہے۔ تاہم، خطے میں، امریکی اپنی قومی سلامتی کی دستاویز میں چین کو 'پہلا مسئلہ' سمجھتے ہیں، اس کے بعد روس اور پھر ایران کا نمبر آتا ہے۔ وہ ان تینوں کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا جاؤ 'ایٹمی ایجنسی کے ساتھ مفاہمت پیدا کروں'۔ ہماری (ان سے) کچھ بحث ہوئی، جس کی وجہ سے کچھ راستے واضح ہوئے اور ایک فریم ورک طے پایا، کیونکہ جوہری مراکز کے کچھ حصوں پر بمباری کی گئی تھی اور تاریخ میں پہلی بار کسی جوہری مرکز پر بمباری ہوئی تھی، جس کے بعد ان کے لئے نئے ضوابط لکھے گئے اور مصر میں معاہدہ ہؤا۔ مغرب نے اسنیپ بیک کے ذریعے اس معاہدے کو ختم کر دیا تو روسیوں نے مسئلہ حل کرنے کا ایک نیا منصوبہ پیش کیا، جسے ایران نے بھی قبول کر لیا۔ یہاں تک کہ ایک یورپی منصوبہ بھی سامنے آیا، اور ایران نے حل کے تمام ممکنہ راستے قبول کر لئے۔ مختلف چینلز کے ذریعے مذاکرات ہوئے۔
مغرب حقیقی مذاکرات کیوں نہیں چاہتا؟
مغرب حقیقی مذاکرات اس لئے نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ان کا تصور یہ ہے کہ اس وقت ان کے پاس ایران پر دباؤ لانے کا موقع ہے۔ ہمیں ملنے والی معلومات کے مطابق، مغرب سمجھتا ہے کہ اقتصادی دباؤ کی وجہ سے سماجی بحران پیدا ہو سکے گا اور وہ ایران کے ساتھ اپنا حساب کتاب صاف کر سکیں گے اور ان کے پاس کوئی دوسرا چارہ بھی نہیں ہے کیونکہ ہم نے انہیں مطمئن کرنے کے لئے تمام راستے طے کر لئے ہیں۔ کہتے ہیں ایٹمی ایجنسی سے بات چیت کرو۔ حتی کہ امریکیوں کے ساتھ ان کی شرائط پر بات چیت کرو۔ رہبر انقلاب نے فرمایا "یہ مذاکرات نہیں ہیں، اور اگر امریکہ غیر مشروط مذاکرات کرنا چاہے تو جاؤ 1+5 کے سانچے میں مذاکرات کرو"۔
لیکن امریکی صراحت کے ساتھ ایران کے میزائلوں کی رینج 500 کلومیٹر سے کم کرنے کی شرط لگاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات حقیقی نہیں ہونگے۔ ہم یہ تمام راستے طے کر چکے ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس دباؤ ڈالنے کا یہی موقع ہے اور انہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے، اور شاید پھر بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ کس قوم سے ان کا سامنا ہے؛ یہ درست ہے کہ مشقت پیدا ہوگی لیکن بہر حال ہمیں اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہئے، خدا بھی ہماری مدد فرمائے گا، کہ یہ مشقت ان کی خواہش کے مطابق نہ ہو۔ کیونکہ پابندیاں اس قدر وسیع پیمانے پر تھیں کہ اب ایک بڑا اتحاد ان ممالک کا بن چکا ہے جن کو امریکی پابندیوں کا سامنا ہے۔
اختتام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ